جوان ہے عزم تو پھر ظلم کی بربادی باقی ہے
اندھیری رات ہے اب تک ، ابھی آزادی باقی ہے
درندے دندناتے پھر رہے ہیں شہر آدم میں
ہے قید نفس میں انساں، ابھی آزادی باقی ہے
لہو بہتا ہے اب بھی شہر کے آباد رستوں پر
بہت گھر ہو گیے سنساں، ابھی آزادی باقی ہے
دکان انصاف کی سجتی ہے اب بھی شہر حاکم میں
بکے منصف بلا عنواں، ابھی آزادی باقی ہے
جسے جمہوریت کہتے ہیں، وہ درس خودی بھی ہے
یہ کیا سمجھے سیاست داں، ابھی آزادی باقی ہے
یہ آزادی کی باتیں، پھر سے یہ شورش غلامی کا
محل پھر ہو رہے لرزاں، ابھی آزادی باقی ہے
سنو آذر، صدائیں آرہی ہیں دور وادی سے
اٹھا ہے اک نیا طوفاں، ابھی آزادی باقی ہے
Like this:
Like Loading...
Back to top button
it,s simply outstanding.
It is real 🙂